مایوسی کیوں؟

Jun-17-2023

  ایوان شاد باد/ڈاکٹر حنیف مغل  ایڈووکیٹ
سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سندھو دیش،بلوچ لبریشن موومنٹ ،گریٹر پختونستان جیسی علیحدگی کی تحریکوں کو پنپنے کا نیا جواز مل گیا تھا۔ جئے سندھ موومنٹ کے بانی جی ایم سید نے الگ وطن سندھو دیش کا مطالبہ شروع کیا۔ یہ تحریک انڈیا کی پشت پناہی سے پر تشدد ہوتے چلی گئی۔ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں شدت پسندی کی اس تحریک نے پورے ملک میں خوف پھیلا دیا تھا۔ذرائع ابلاغ "سندھ جل رہا ہے" کی شہہ سرخیوں سے بھرے رہتے تھے۔ لیکن آج سندھو دیش کا مطالبہ دم توڑ چکا ہے۔کبھی کبھار کسی پرتشدد واقعہ کی اطلاع آتی ہے ورنہ سندھ میں علیحدگی پسندوں کا صفایا ہو چکا ہے۔
اردو دیش کی سچی جھوٹی کہانی بھی حسرتناک انجام کو پہنچ چکی ہے۔مرکز گریز قوت بن کر ابھرنے والے مہاجر لیڈر کو ان کی اپنی پارٹی اور کراچی اور حیدر آباد کے محب وطن شہریوں نے عاق کردیا اور وہ اب لندن میں جسمانی اور معاشی عارضوں میں الجھے ہوئے ہیں۔
بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک بھی بہت زوروں پر تھی۔بلوچستان کے بلوچ علاقوں کو علیحدگی پسندوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔ریاستی اور حکومتی اداروں کے نمائندوں کا بلوچستان کے متعدد ضلعوں میں داخلہ ممنوع تھا۔سرکاری عمارتوں پر پاکستانی جھنڈا لہرانا خطروں سے خالی نہیں تھا۔آج بلوچ لبریشن آرمی کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔بچے کھچے عناصر بھی کیفر کردار تک پہنچ گئے ہیں اور پاکستان کی فوج،انتظامیہ اور دیگر سول ادارے ان علاقوں میں بے دھڑک خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
گریٹر افغانستان کے تصور کے دیرینہ پروموٹر پختون رہنماء کی رحلت کے بعد ان کی پیروکار جماعت آج پوری طرح قومی دھارے میں شامل ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پر جوش خیر خواہ بھی۔پی ٹی ایم کے نام سے ابھرنے والی تحریک بھی تقریروں تک محدود ہوگئی ہے۔ڈیورنڈ لائن کو نہ ماننے والی اور اٹک تک کے علاقے کو افغانستان کا حصہ قرار دینے والی پاکستان مخالف لابیوں کا دانہ پانی بند ہوگیا ہے۔پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ نے دراندازی کے نوے فیصد امکانات کم کردئیے ہیں۔فاٹا کے علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے بھی گریٹر افغانستان جیسی درفتنیوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ ملنے سے وہاں کے لوگوں کے اندر پاکستانی ہونے کا تفاخر جاگ اٹھا ہے اور انہیں ان کی امنگوں کے مطابق پہچان مل گئی ہے۔
دہشت گردی کیخلاف جنگ جیت کر پاکستان نے پوری دنیا کو حیران کردیا تھا۔اب پاکستان کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہو چکی ہے کہ دہشت گردی جب بھی کسی بھی شکل میں سر اٹھانے کی کوشش کرتی ہے تو ریاست عوامی حمایت سے دہشتگردوں کا سر کچل دیتی ہے۔
گوادر اور سی پیک جیسے منصوبے تیزی سے تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بجلی کی پیداوار میں اضافے نے بدترین لوڈ شیڈنگ سے نجات دلا دی ہے۔
افسوس کی سیاسی انتشار کے سبب اس داخلی استحکام کا فائیدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔ معاشی طور پر ملک پیچھے ہی پیچھے جارہا ہے۔سیاستدانوں نے بدقسمتی سے اپنے رویوں کے اندر دوراندیشی کو پروان چڑھنے نہیں دیا۔ہم بڑی مشکل سے ڈیفالٹ ہونے سے بچے ہیں۔اور ہم اب بھی سیاسی افراتفری سے بچ کر بہت سی آنے والی مالی مشکلات سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ 
دشمن نے گزشتہ دس برسوں میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے کہ پاکستان کو تنہا کردیا جائے،سی پیک کو رول بیک کروایا جائے اور ایٹمی پروگرام کی کیپنگ ہوجائے۔دشمن کی چالوں کو ناکام کرنا اسی صورت ممکن ہے جب ہم سیاسی استحکام کے کم از کم ہدف کو حاصل کرلیں۔آئی ایم ایف کے دباو سے چھٹکارا حاصل کرلیں.
اندیا،امریکہ اور یورپ کے دباؤ سے نکلنے کا راستہ ہماری اجتماعی دانشمندی میں مضمر ہے۔ایسے مشکل مرحلے پر قومی وحدت وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس چیلنج کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔قومی وحدت سیاسی انتشار کے خاتمے کے بغیر ممکن ہی نہیں۔سیاست کے پردے میں چھپے عناصر جو انتشار کو پھیلاتے اور ہوا دیتے ہیں ان سے قوم کو خبردار کرنا اور قانون کے مطابق ان کا علاج کرنا وقت کی ضرورت ہے۔انسان اقتدار کے حصول میں اس قدر اندھے ہوجاتے ہیں کہ وہ پورے ملک کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر دشمنوں سے گٹھ جوڑ کرلیتے ہیں۔ایسے عناصر کو اگر انسانی حقوقِ کے نام پر کھلا چھوڑ دیا جائے تو یہ کھل کھیلتے ہیں اور ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی وحدت کو پارہ پارہ کر سکتے ہیں۔
کئی بار ایسے عناصر متحرک ہوئے ہیں۔ایسے حالات بھی آتے رہے ہیں لیکن پاکستان نے ہرطرح کے انتشار پر قابو پایا ہے۔ہمیں مطمئن رہنا چاہیے کہ پاک فوج اور پاکستانی عوام کے درمیان سدا بہار محبت ہے۔نظام اور حکمران بدلنے سے اس تعلق پر آنچ نہیں آسکتی۔اور افواج پاکستان پر اعتماد ہی قومی یک جہتی کی بنیاد بنتا ہے۔بہت جلد ہم پیدا کئے گئے موجودہ انتشار پر بھی قابو پالیں گے۔
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش 
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے 
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے