وہ سونے کا چمچ لیکر پیدا نہیں ہوئے۔انہوں نے تگ و تاز حیات کی کٹھانائیوں کو جرآت سے پار کیا ہے۔ زندگی کی مشکلات پر عزم اور حوصلے سے قابو پایا ہے۔حالات کا رونا رونے اور زمانے سے شکوہ کناں رہنے کی بجائے پوٹھار کے اس مغل فرزند نے "ہمت مرداں مدد خدا"کی عملی تصویر پیش کی۔
زندگی کے مراحل کیسے طے ہوئے،کہاں سے تیر آئے اور کہاں سے پھول برسے یہ موضوع ایک مکمل کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔فی الحال اتنا بتانا کافی ہے کہ،
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والا طالب علم ھومیوپیتھی کے علم سے بہرہ مند ہوا اور اس نے ایسی جان توڑ محنت کی کہ وفاقی دارالحکومت کی اپر کلاس میں اس طریقہ علاج کو معتبر ثابت کر دیا۔دو بار نشان ھومیوپیتھک کے نام کے گولڈ میڈل حاصل کیے۔
ڈاکٹر صاحب ایشیا لیگ آف ھومیوپیتھی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ ہیومین ڈائٹ اینڈ نیوٹریشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ھومیوپیتھی میں ایم فل،ایم پی ایچ،بی ایچ ایم ایس ہیں۔
بین الاقوامی سطح کے ریسرچ اسکالر ہیں جن کے متعدد تحقیقی مقالے انٹرنیشل جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ وہ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں میں صحت کے موضوعات پر لیکچر دیتے ہیں۔
یہ ممتاز مقام حاصل کرنے میں بہت سے برسوں کا سفر ہے اور یقین کیجیے کہ اس سفر میں ڈاکٹر صاحب کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں آئی،پتھروں پر چل کر ہی یہ منزل حاصل کی ہے۔
بقول اقبال،
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر،تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی۔
ڈاکٹر صاحب روزانہ سینکٹروں مریضوں کو دیکھتے ہیں،ان کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں،دوائی دیتے ہیں اور مریض جسمانی طور پر شفا پاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سالہاسال کے مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بہت سی بیماریوں کا سبب ہماری غیر متوازن غذا ہے۔اگر غذا کو متوازن بنا لیا جائے تو بہت سی دواؤں سے بچا جاسکتا ہے بلکہ زندگی بھر دواؤں سے نجات مل سکتی ہے۔اسی غرض کیلئے ڈاکٹر صاحب نے ایک عام آدمی کی ضرورت کے مطابق متوازن غذا کے اجزاء کا احاطہ کیا ہے۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں،
"جس طرح ایک گاڑی کو اچھے طریقے سے کام کرنے کے لیے لئے صاف ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اس طرح انسانی جسم کو گروتھ اور نشوونما کے لیے متوازن خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔اگر ہماری غذا متوازن ہو گی تو ہمارے جسم کی کارکردگی اچھی ہوگی اور ہمیں دواؤں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی"
ڈاکٹر صاحب کی تصنیف "متوازن غذا ۔۔قدرتی دوا" اسی سوچ کا مظہر ہے۔یہ ایک کتاب بھی ہے اور ہم سب کیلئے بہترین جسمانی نشوونما کا مینؤول بھی ۔ہر عمر،جنس،علاقے اور ملک کیلئے یہ ایک جیسی مفید تخلیق ہے بلکہ حقیقت میں معاشرے کیلئے ڈاکٹر صاحب کی طرف سے خوبصورت سا تحفہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں فکری نشوونما کا پراسس جاری رہتا ہے۔ایک ڈاکٹر اورمریض کا تعلق صرف فیس اور علاج تک محدود نہیں ہوتا۔ڈاکٹر حنیف مغل نے روزمرہ کی پریکٹس کے دوران مریضوں کے نفسیاتی،معاشرتی اور معاشی مسائل کا بھی بغور جائزہ لیا ہے۔انسانی معاملات میں صرف جسمانی علاج سے خوشگواری پیدا نہیں ہوسکتی۔ لوگ مایوس ہیں،ناامید ہیں،بے اعتماد ہیں،بداندیش ہیں،بے قابو خواہشات کے اسیر ہیں۔ غربت اور بے روزگاری نے ان بیماریوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ان بیماریوں کا علاج کیسے کیا جائے !
یہ فکر ڈاکٹر صاحب کے ہمیشہ دامن گیر رہی ہے۔اور بالآخر انہوں نے ایک مشکل راہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے انسانی زندگیوں میں خوشگواری اور شادابی لانے کیلئے "تحریک شادباد"کی بنیاد رکھی اور اسے سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ کروایا۔وہ ڈاکٹر ہیں اور اب مسیحائی کے سفر پر نکل پڑے ہیں۔
اسلامی اسکالر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل جو خود کو بڑے فخر سے ڈاکٹر حنیف مغل کا شاگرد بتاتے ہیں ان کے مطابق،
"ڈاکٹر صاحب نے خدمت خلق کے کئی طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔لیکن ان کا یہ کام انفرادی سطح کا تھا۔انہوں نے اس کام کو ایک تحریک کی شکل دینے کا سوچا اور بڑی سوچ بچار کے بعد ایک سیاسی پارٹی رجسٹر کرا لی ہے"
ڈاکٹر محمد حنیف کی ہمدردانہ سیاسی فکر رنگ و نسل،علاقہ و زبان،خطہ اور ملک کی حدودوقیود میں قید نہیں۔وہ سب انسانوں کی فلاح اور خوشحالی کے علمبردار ہیں۔ان کا پیغام محبت پوری انسانیت کیلئے ہے۔لیکن انہوں نے ایک زیرک رہنماء کے طور پر سیاسی جد وجہد کے مرحلے طے کر رکھے ہیں۔وہ مسیحائی کے اس سفر میں مرحلہ وار آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہم ڈاکٹر صاحب کی اس نئے محاذ پر کامیابی کیلئے دعا گو ہیں۔
بیگ راج
ڈائریکٹر/ایڈیٹر
نیشنل پریس سنڈیکیٹ
اسلام آباد۔پاکستان