امریکہ سے معاہدہ ،سنہری موقعہ

Aug-04-2025

ایوان شاد باد/ ڈاکٹر حنیف مغل 
 معاہدے کی تفصیلات دھیرے دھیرے سامنے آئیں گی لیکن گزشتہ 78 برس میں پہلی بار امریکہ سے کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا بلکہ تجارتی معاہدہ ہوا ہے۔دونوں ملکوں نے برابری کی بنیاد پر معاہدہ کیا ہے۔ ابھی  یہ کہنا مشکل ہے کہ ہماری  ٹیکسٹائل کی برآمد میں کتنا اضافہ ہو گا کیونکہ پاکستان کو 19 فیصد کے رعائتی ٹیرف کا زیادہ فائدہ اسی صورت ممکن ہے جب بجلی کی قیمت اور دوسرے عوامل بھی علاقے کے دوسرے ملکوں کے برابر ہوں۔
جہاں تک امریکہ کیطرف سے پاکستان میں بہت زیادہ تیل ہونے کی خوش خبری دی گئی ہے تو
واقفان حال کا کہنا ہے کہ
پاکستان میں روس اور دوسرے ممالک بھی تیل کی تلاش کرچکے ہیں۔ 2013  میں  پاکستانی  حکومت  نے کھربوں بیرل تیل اور گیس  کی  تلاش  کے ٹینڈر جاری  کیے تھے ۔ تب ہم سنتے تھے کہ پاکستان میں بہت تیل ہے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر بہت سے کنویں جن میں بہت گیس اور تیل تھا بند کئے گئے تھے۔ 
 کراچی سے گوادر اور کراچی سے سجاول تک تیل کے بہت بڑے ذخائر ہیں ان کا اندازہ امریکی مصنوعی سیاروں نے بھی کر لیا ہوگا۔
اس معاہدے سے پاکستان کو ملنے والے اقتصادی اور سیاسی فوائد کا مکمل اندازہ بعد میں ہوگا ابھی صرف یہ بات حقیقت لگ رہی ہے کہ بھارت کو صدر ٹرمپ کا یہ جملہ ہی گھائل کرگیا کہ پاکستان ہندوستان کو تیل برآمد کرسکتا ہے۔
بھارتی چینلز پر حسب معمول ماتمی کیفت طاری ہے لیکن خوف زدہ بھارتیوں کے غصے کا انتظار ہے۔ ممکن ہے وہ امریکی سفارت خانہ بند کرنے کی حماقت کردیں۔ 
کہا جاتا ہے کہ بھارت کو یہ احساس ہوگیاہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو بے وقوف نہیں بناسکا۔ صدر نے " چین کے محاصرے " کی "گیدڑ سنگھی " کے بجائے امریکی اقتصادی ضرورتوں کے حوالے سے ٹیرف آور تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ یہ احساس ہونے کے بعد بھارت کے " محصور " وزیر اعظم  امریکا کے پاؤں بھی پڑ سکتے ہیں لیکن وہ بھارتی پروٹیکشن ازم کا کیا کریں گے۔ ان کے پاس کوئی من موہن نہیں جو مسئلہ کا حل نکال سکے۔ وہ ٹیرف آور جرمانہ کم کرانے کے لئے کچھ کررہے ہیں شاید مذاکرات جاری ہیں لیکن روس سے تعاون ختم کرنا اس سے فوجی سامان نہ خریدنا پروٹیکشن ازم ختم کرنے سے بھی زیادہ ناممکن ہوگا۔امریکا واضح طور پر ہندوستان سے کچھ بھی منوانے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔
الحمدللہ آج ہم ہندوستان سے بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس بار امریکا سے تعلقات کا راستہ روس یا افغانستان نہیں بلکہ تجارتی راستے ہیں۔

میں اپنے حلقے میں جاتا ہوں یا احباب میرے پاس تشریف لاتے ہیں تو موضوع بحث پاک امریکہ تجارتی معاہدہ ہی ہوتا ہے۔ہم پاکستانی بہت ڈرے ہوئے لوگ ہیں ۔کءا بھروسہ کہ کب ٹرمپ کی ترجیحات بدل جائیں۔اس لئے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پی رہا ہے۔

بھارت یقینی طور پر خوش نہیں ہے کیونکہ امریکا جسے وہ اسٹریٹجک اتحادی سمجھتا ہے، اس نے ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن دو متحارب ہمسایوں کے درمیان بڑھتی ہوئی دراڑ کو ختم کرنے میں بیرونی طاقت کا کردار محدود ہوتا ہے۔ پاکستان کی یہ توقعات کہ واشنگٹن اسلام آباد اور نئی دہلی کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کر سکتا ہے، غیر حقیقی ہیں۔
ماضی میں پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات زیادہ تر قلیل مدتی سلامتی کی ضروریات یا مشترکہ مسائل پر مرکوز رہے ہیں۔
یہ ایک بدلی ہوئی دنیا ہے۔پاکستان کیلئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔روائتی انداز چھوڑ کر ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے انقلابی سوچ کی ضرورت ہو گی۔

پاکستان ہر سال امریکا کو 5 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی اشیا برآمد کرتا ہے جو پاکستان کی کُل برآمدات کا تقریباً 18 فیصد بنتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر برآمدات تقریباً 75 سے 80 فیصد ٹیکسٹائل مصنوعات ہیں۔

پاکستان کے لیے امریکا ایک اہم تجارتی اور اقتصادی شراکت دار ہے۔ لیکن اس میں بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اسٹریٹجک اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے عوض یہ ملک امریکا کے علاقائی تنازعات کا آلہ کار نہ بن جائے۔ یہ خدشات اب اور بھی زیادہ سنگین ہیں کیونکہ خطے میں تناؤ بڑھ رہا ہے اور اس میں اکثر واسطہ یا بالواسطہ امریکا ملوث ہوتا ہے۔ پاکستان کو خود کو امریکا کی جنگوں میں جھونکنے سے گریز کرنا چاہیے۔
شکوک و شبہات اپنی جگہ برقرار ہیں لیکن معتبر تبصرے نگار ادارے 
عرب نیوز نے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس معاہدے سے صرف روایتی تجارت ہی نہیں بلکہ توانائی، معدنیات، آئی ٹی، اور کرپٹو کرنسی جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں بھی دو طرفہ تعاون کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو اقتصادی کے ساتھ ساتھ تکنیکی و اسٹریٹجک محاذ پر بھی نئی بلندیوں پر لے جا سکتا ہے۔
فاکس بزنس کی رپورٹ میں صدر ٹرمپ کے طنزیہ انداز کو اجاگر کیا گیا، جہاں انہوں نے کہا کہ شاید اس شراکت داری کے نتیجے میں تیل بھارت کو بھی برآمد کیا جائے۔ اس ایک جملے میں جنوبی ایشیا کی پیچیدہ سیاسی حرکیات کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔ امریکا، پاکستان، اور بھارت کے مابین موجود جغرافیائی سیاست کی گرہیں بعض اوقات ایسے ہی بیانات سے کھلتی یا مزید الجھتی ہیں۔
بلومبرگ نے اس معاہدے کو امریکی سرمایہ کاری کے تناظر میں دیکھا ہے، جس کے تحت پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں براہِ راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی رشتے کو مزید گہرا کرے گا، اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کے نئے امکانات پیدا کرے گا۔
قارئین یہ دنیا خدشات ہی نہیں امکانات کی بھی دنیا ہے۔پاکستانی قیادتوں کو اس تاریخی معاہدے سے فوائد اٹھانے کیلئے دن رات ایک کر دینا چاہیے۔میں تو کہوں گا کہ ہر پاکستانی کو ہنر مندی اور کیپسٹی بلڈنگ کیطرف توجہ کرنی چاہیے۔مثبت انداز میں سوچا جائے تو آج کے پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے چین کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہوچکا ہے۔معدنی وسائل ہمارے ہیں،افرادی قوت ہمارے پاس ہے،ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کیلئے دنیا ہاتھ بڑھا رہی ہے تو پھر مایوسی کیسی؟
خدا کا وعدہ ہے،
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈھنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں